کراچی — سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے کہا ہے کہ وہ پاکستان واپس آکر ایک بار پھر عملی سیاست میں فعال کردار ادا کریں گے۔ ویڈیو لنک کے ذریعے ایک مقامی ہوٹل میں سینئر صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ان کے سامنے دو راستے تھے: یا خاموش تماشائی بنے رہیں یا کچھ کریں، اور انہوں نے “کچھ کرنے” کا فیصلہ کرلیا ہے۔ واپسی کے حوالے سے “کب، کیسے اور کیا” کی تفصیل جلد جاری کی جائے گی۔
ڈاکٹر عشرت العباد نے واضح کیا کہ ان کی نئی حکمتِ عملی ایم کیو ایم یا اسٹیبلشمنٹ پر انحصار نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان واپسی پر کوئی پابندی نہیں، تاہم ایم کیو ایم کے کچھ حلقوں کی جانب سے خدشات کے باعث واپسی میں تاخیر ہوئی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ جلاوطن نہیں بلکہ اپنی مرضی سے بیرونِ ملک تھے اور 2016 میں آصف علی زرداری کی جانب سے پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت کو انہوں نے معذرت کے ساتھ مسترد کیا تھا۔ ان کے مطابق، انہوں نے آصف زرداری کے ساتھ مل کر کراچی کے کئی ترقیاتی منصوبے بھی مکمل کرائے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل سے ملاقاتیں ہوئی ہیں مگر نئی سیاسی جماعت کے قیام پر کوئی بات نہیں ہوئی، ایسی ملاقاتیں معمول کا حصہ ہیں۔ انہوں نے پی ایس پی سے متعلق اپنا کردار یکسر مسترد کیا اور کہا کہ وہ اس طرح کی “بے وقوفانہ تجویز” نہیں دے سکتے۔ ماضی میں انہوں نے اپنے رفقا کو ایم کیو ایم میں رہتے ہوئے سیاست جاری رکھنے کا مشورہ دیا تھا لیکن بعض نے اس پر عمل نہیں کیا۔
کراچی کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہر کے مسائل کی ذمہ داری پیپلز پارٹی سے زیادہ اُن لوگوں پر ہے جو کراچی کی حکمرانی کے دعویدار ہیں۔ متحدہ اور پی ایس پی کا انضمام اُن کے بقول فطری نہیں تھا جس سے متعدد کارکن غیر فعال ہوگئے؛ سب کو ایک پلیٹ فارم پر لانا چاہیے تھا۔
ڈاکٹر عشرت العباد کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کی اخلاقی حیثیت کمزور اور قانونی پوزیشن بھی چیلنجڈ ہے۔ ان کے خالد مقبول صدیقی اور فاروق ستار سے رابطے رہتے ہیں جبکہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری کے کام کو انہوں نے سراہا۔ سیاسی عدم استحکام کے سبب پاکستان کی عالمی ساکھ متاثر ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں غیر ملکی سرمایہ کار ہچکچا رہے ہیں؛ اسی تناظر میں وہ جلد سندھ میں یورپی سرمایہ کاری لانے کی کوشش کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ بعض رہنماؤں کو وطن واپسی پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مثال کے طور پر بابر غوری اپنی والدہ کی عیادت کے لیے آئے تو گرفتار کر لیے گئے۔ پی ٹی آئی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اسے عوامی جذباتی حمایت حاصل ہے مگر حکومتی کارکردگی اچھی نہیں رہی۔ ایک ضمنی انتخاب کے دوران جناح گراؤنڈ میں جلسے کے اعلان سے کشیدگی بڑھی تو انہوں نے عمران خان سے رابطہ کیا اور ان کے مشورے پر صورتحال قابو میں آئی۔
12 مئی کے واقعات کے بعد کی کشیدہ فضا پر گفتگو میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے واقعہ رکوانے کی پوری کوشش کی لیکن روک نہ سکے۔ بعد ازاں انہوں نے کوششوں کے ذریعے بڑے تصادم اور خون خرابے سے بچاؤ ممکن بنایا۔
انہوں نے کہا کہ ہر سیاسی جماعت کا اپنا مزاج ہوتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کا بھی ایک کردار ہے؛ غلطیاں ممکن ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ ریاست مخالف نہیں ہو سکتی۔ موجودہ غیر معمولی حالات میں محبِ وطن اور سینیئر سیاست دانوں کو آگے بڑھ کر سیاسی تناؤ کم کرنے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔
انہوں نے اپنے دوستوں اور حامیوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جو کچھ بھی کرنا ہے وہ پاکستان آکر ہی ممکن ہے؛ فی الحال کسی جماعت میں شمولیت نہیں کر رہے اور مناسب وقت پر واپسی کا تفصیلی منصوبہ پیش کریں گے۔ مزید یہ کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے “ساتھ” تو کام کر چکے ہیں مگر “اس کے لیے” کبھی کام نہیں کیا۔
ڈاکٹر عشرت العباد دسمبر 2002 سے اکتوبر 2016 تک سندھ کے گورنر رہے اور یہ صوبے کی تاریخ کی طویل ترین مدت گورنری ہے۔ گورنرشپ کے بعد وہ دبئی منتقل ہوئے اور کئی برس بیرونِ ملک مقیم رہے؛ بعض رپورٹوں میں ان کا نام نگران وزیرِ اعظم کے ممکنہ امیدواروں میں بھی لیا گیا۔
ڈاکٹر عشرت العباد نے وطن واپسی اور فعال سیاست کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ نئی حکمتِ عملی ایم کیو ایم اور اسٹیبلشمنٹ سے غیر منسلک ہوگی۔ وہ یورپی سرمایہ کاری لانے کے خواہاں ہیں، کراچی میں آصف زرداری کے ساتھ ترقیاتی منصوبوں کا ذکر کیا، اور کہا کہ ملک کے موجودہ حالات میں سینیئر سیاستدانوں کو سیاسی استحکام کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا۔



